Tuesday 8 September 2015

حد ادب ہے خاموش ہوں میں

حد ادب ہے خاموش ہوں میں
غم جدائی میں مدہوش ہوں میں

لب پہ خاموشی ہے آنکھوں میں نمی میری
کیا روگ دل بیان کرو خاموش ہوں میں

بدل رہا ہے موسم کی طرح رنگ اپنے
کر رہا ہےقتل مگر خاموش ہوں میں

خون دل سے جو سینچا تھا میں نے کبھی
سامنے میرے اجڑ گیا باغ مگر خاموش ہوں میں

وعدہ تھا جسکا کبھی نا ہونگے جدا ہم
چرائی نطر مجھ سےمگر خاموش ہوں میں

وہ اقرار، وہ عہدے وفا سب خاک ہوۓ
وقت اڑاتا رہا ہنسی میری مگر خاموش ہوں میں

ڈر ہے جس دن بول اٹھا دل بے اختیار بھی
آجاے گی قیامت اسی بات پہ خاموش ہوں میں

  کیا سمجتھا ہے روند جائے گا اپنے ارادوں میں مجھکو
خود بھی مٹ جائے گا اس بات پہ خاموش ہوں میں
آصفہ وآصف

No comments:

Post a Comment

Current Vistors:-