حد ادب ہے خاموش ہوں میں
غم جدائی میں مدہوش ہوں میں
لب پہ خاموشی ہے آنکھوں میں نمی میری
کیا روگ دل بیان کرو خاموش ہوں میں
بدل رہا ہے موسم کی طرح رنگ اپنے
کر رہا ہےقتل مگر خاموش ہوں میں
خون دل سے جو سینچا تھا میں نے کبھی
سامنے میرے اجڑ گیا باغ مگر خاموش ہوں میں
وعدہ تھا جسکا کبھی نا ہونگے جدا ہم
چرائی نطر مجھ سےمگر خاموش ہوں میں
وہ اقرار، وہ عہدے وفا سب خاک ہوۓ
وقت اڑاتا رہا ہنسی میری مگر خاموش ہوں میں
ڈر ہے جس دن بول اٹھا دل بے اختیار بھی
آجاے گی قیامت اسی بات پہ خاموش ہوں میں
کیا سمجتھا ہے روند جائے گا اپنے ارادوں میں مجھکو
خود بھی مٹ جائے گا اس بات پہ خاموش ہوں میں
آصفہ وآصف
No comments:
Post a Comment