Thursday 10 September 2015

تیری تنہائی میں مخل ہوا جاہتے ہیں

تیری تنہائی میں مخل ہوا چاہتے ہیں
ہم تو پریم میں سفل ہوا چاہتے ہیں

تیرے آنگن میں بکھر کر رنگوں کی طرح
ماند قوس قضا ہوا چاہتے ہیں

بعد تیرے نہ جلے چراغ دل مندر میں
ہم تو بن کے چراغ دل میں روشن ہوا چاہتے ہیں

!دل کی لگی بھی جانے دل والے، آپ کیا جانو
ہم تو دل کی گہرایئوں میں آپکے ہوا چاہتے ہیں

یہ تو دل ہے مگر سمندر سے بھی گہرا وآصف
اس سمندر مین کتنے رنگ سمرپن ہوا چاہتے ہیں

یہ تو رنگ ہے تیری محبت کا جو بولتا ہے
ورنہ کب الفاظ غزل میں پرویہ چاہتے ہیں

محبتوں کے درپن میں روشن ہوا چاہتےہیں
ہم تو بس آپکے ہیں اور آپکے ہوا چاہتے ہیں
آصفہ وآصف

Wednesday 9 September 2015

میں ہوں اک چاہتوں کا سمندر میرے دستو

!میں ہوں اک چاہتوں کا سمندر میرے دستو
!زندگی میں اگر ن مل سکو تو غم ہے دستو

ہم نے قربان کیا دل و جاں اس پر مگر
!اک چھوٹی سی بات پہ ناراض ہے دوستو

زندگی سے بڑھکر ہے میرا پیار اسکے واسطے
!پھر بھی اسکے پیار سے بہت کم ہے دستو

جس دل کو ویران جان کر چھور گئے تھے
!اب وہی آباد ہے پر شاد ہےدستو

زندگی میں ہر پل رہے گا اسی سے پیار
!یہی اک سچا اقرار ہے دستو
آصفہ وآصف






Tuesday 8 September 2015

حد ادب ہے خاموش ہوں میں

حد ادب ہے خاموش ہوں میں
غم جدائی میں مدہوش ہوں میں

لب پہ خاموشی ہے آنکھوں میں نمی میری
کیا روگ دل بیان کرو خاموش ہوں میں

بدل رہا ہے موسم کی طرح رنگ اپنے
کر رہا ہےقتل مگر خاموش ہوں میں

خون دل سے جو سینچا تھا میں نے کبھی
سامنے میرے اجڑ گیا باغ مگر خاموش ہوں میں

وعدہ تھا جسکا کبھی نا ہونگے جدا ہم
چرائی نطر مجھ سےمگر خاموش ہوں میں

وہ اقرار، وہ عہدے وفا سب خاک ہوۓ
وقت اڑاتا رہا ہنسی میری مگر خاموش ہوں میں

ڈر ہے جس دن بول اٹھا دل بے اختیار بھی
آجاے گی قیامت اسی بات پہ خاموش ہوں میں

  کیا سمجتھا ہے روند جائے گا اپنے ارادوں میں مجھکو
خود بھی مٹ جائے گا اس بات پہ خاموش ہوں میں
آصفہ وآصف

Monday 7 September 2015

آپ ہمھارے لیئےکچھ دعا کیجئے

آپ ہمھارے لیئےکچھ دعا کیجئے
اپنی یادیں بھی ہم سے جدا کیجئے

پھر آنسوہوں سے آنکھوں کو نم کیجئے
ہمارا یوں لمحوں میں دل جلا دییجئے

پلٹ کے نہ آیئں کھبی ہم یہاں
اپنی آہوں سے یوں بدعا دیجئے

 کھا کے پتھر زمانے سے ہوئے پتھر ہم
ہمیں بھی یوں تھوڑا سا رولادیجئے

پیار میں ہم آپکے ہی گہنگار ہیں
مہربانی سے اپنی سزا دیجیے
آصفہ وآصف

ٌپاک آرمی کے نام: یہ منزلیں مراج کی یہ راستہ ہے عشق کا

یہ کونسا ہے راستہ کوئی نہ سمجھ سکا
یہ منزلیں مراج کی یہ راستہ ہے عشق کا

اے رسولﷺ خدا میں امتی ہوں آپکا
سفر ہے کھٹن میرا راستہ فراق کا

ہو دیدار جو آپکا، نہیں ہےکوئی غم مجھے
کٹا رہا ہوں سر میں وقت ہے جہاد کا

فرشتوں کو بھی ہے ناز اے مجاہد نبی
باندھ کر کفن چلااسی رسولﷺکا

اے میرے خدا منہ توڑچلا میں دشمن کا
جنم دیا ہے ماں نےپر، بیٹا ہوں میں وطن کا

آصفہ وآصف

میں تیری محبتوں کے حسار میں ہوں

میں تیری محبتوں کے حسار میں ہوں
میر ے ہمدم میرے ہم سفرمیں تیرے انتظارمیں ہوں

پل پل کی جدائی محبتوں کو جنم دیتی ہے
لمحہ لمحہ یوں زندگی جی، جیسےپل صراط پر ہوں

اس سفر میں کسک میٹھے درد کی بھی ہے
سوچوں میں کم اور ایذیتوں سے دوچار بھی ہوں

اک پل میں بکھر جاتی ہوں، تو کبھی
اک پل میں سنبھل جاتی ہوں لیکن

 !کیا کہوں دل کی حالت، اے رب
میں تیرے فصیلےکے انتظار میں ہوں

اک لمحے میں جلا دیا میرے وجود کواس دنیا نے
میں طلبگار ہوں اور بے قرار بھی ہوں

آصفہ وآصف
Current Vistors:-